
واشنگٹن (4 دسمبر 2025، صبح 10:56) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے ہائی سکلڈ غیر ملکی ملازمین کے لیے H-1B ویزہ پروگرام میں انقلابی سختیاں عائد کر دی ہیں، جو ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور میڈیکل جیسے شعبوں میں کام کرنے والوں کو براہ راست متاثر کرے گی۔ امریکی محکمہ خارجہ نے تمام سفارت خانوں کو ہدایات جاری کر دی ہیں کہ درخواست دہندگان کے LinkedIn پروفائلز، ریزیومے اور آن لائن سرگرمیوں کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے، اور اگر کوئی “اظہار رائے کی پابندی” یا “غلط معلومات پھیلانے” جیسی سرگرمیوں میں ملوث پایا گیا تو ویزہ مسترد کر دیا جائے۔ یہ پالیسی نئے اور دوبارہ آنے والے دونوں درخواست دہندگان پر فوری طور پر लागو ہو جائے گی، جو ہندوستان، چین اور پاکستان جیسے ممالک سے لاکھوں ماہرین کو امریکی نوکریوں سے محروم کر سکتی ہے۔
امریکی شہریت اور امیگریشن سروسز (USCIS) کے ڈائریکٹر جو ایڈلو نے ایک پالیسی میمو میں کہا کہ “ہم ایسے افراد کو نہیں چاہتے جو امریکی بنیادی آزادیوں (جیسے آزادیِ رائے) کے خلاف کام کرتے ہوں، چاہے وہ فیکٹ چیکنگ، آن لائن سیفٹی، یا مواد کی سنسرشپ میں ملوث ہوں”۔ یہ حکم نیشنل گارڈ حملے (افغان ملزم) کے بعد آیا، جہاں USCIS افسران کو “ملک مخصوص عوامل” کو منفی بنیاد قرار دینے کی ہدایات دی گئی ہیں۔ نئی پالیسی میں LinkedIn، سوشل میڈیا اور پروفیشنل نیٹ ورکس کی اسکریننگ لازمی ہو گی، جو درخواست دہندگان کو “ریڈ فلیگ” بنا سکتی ہے۔
پالیسی کی اہم سختیاں:
- درخواست دہندگان کا پروفیشنل پس منظر، آن لائن پوسٹس اور سابقہ ذمہ داریاں چیک
- سنسرشپ، فیکٹ چیکنگ یا “غلط معلومات” میں ملوث ہونے والوں کو ویزہ انکار
- نئے H-1B پٹیشنز کے لیے $100,000 اضافی فیس (21 ستمبر 2025 سے)
- موجودہ ویزہ ہولڈرز پر اثر نہیں، مگر نئی درخواستوں پر فوری روک
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پالیسی امریکی ٹیک انڈسٹری کو شدید متاثر کرے گی، جہاں ہندوستان سے 70% H-1B ویزہ آتے ہیں (FY 2025 میں 442,000 رجسٹریشنز)، اور کمپنیاں جیسے Google، Amazon، Microsoft کو ہنرمند افرادی قوت کی کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ یہ “امریکی ورکرز کی حفاظت” کے لیے ہے، مگر تنقید کرنے والے اسے “امتیازی” قرار دے رہے ہیں، کیونکہ یہ پروگرام صحت، ٹیک اور انجینئرنگ میں امریکی خلا کو بھرتا ہے۔






