
اسلام آباد (2 دسمبر 2025، رات 8 بجے) وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے آج ایک اہم تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ “حکومت کا کام نوکریاں دینا نہیں، بلکہ ایسی معاشی پالیسیاں بنانا ہے جو نوجوانوں کو خود نوکریاں پیدا کرنے کے مواقع دے”۔ انہوں نے ملک میں آئی ٹی، فری لانسنگ اور ڈیجیٹل اکانومی کو فروغ دینے پر زور دیا، جو لاکھوں نوجوانوں کے لیے نئی راہیں کھول سکتی ہے، مگر ماہرین اور سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے اس بیان پر سخت تنقید کی ہے۔ پاشا نے کہا کہ “افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بے روزگار نوجوانوں کی تعداد 18 ملین تک پہنچ گئی ہے، جو 24 سال کی بدترین سطح ہے، اور آئی ایم ایف نے 30 سال میں پہلی بار ‘ایلیٹ کیپچر’ کا لفظ استعمال کیا، یعنی اشرافیہ اپنے مفادات کے لیے ملک کو لوٹ رہی ہے”۔
یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس (PBS) کی رپورٹ نے بے روزگاری کی شرح کو 7.1% قرار دیا، جو 2004 کے بعد سب سے زیادہ ہے، اور ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اعداد و شمار بھی کم رپورٹ کیے گئے ہیں۔ ہر سال 35 لاکھ نوجوان ملازمت کی تلاش میں مارکیٹ میں آتے ہیں، مگر جی ڈی پی گروتھ صرف 1.8% رہنے کی وجہ سے نوکریاں پیدا نہیں ہو رہی، جو درمیانہ طبقے کو تباہ کر رہی ہے۔ حفیظ پاشا نے مزید کہا کہ “ایک چارٹر بنانا پڑے گا، اشرافیہ کو سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر سخت ریفارمز کروانے ہوں گے، ورنہ ملک کا مستقبل خطرے میں ہے”۔
ڈاکٹر ایس اکبر زیدی (IBA) نے بھی کہا کہ “ہمارا ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس 168واں نمبر ہے، آئی ٹی انقلاب کی باتیں حقیقت سے دور ہیں، جب تک بنیادی تعلیم اور ہیلتھ سسٹم ٹھیک نہ ہو تو نوجوانوں کی صلاحیت ضائع ہو رہی ہے”۔ یہ بیانات حکومت کے “معاشی بحالی” کے دعوؤں پر سوال اٹھاتے ہیں، جہاں تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس بوجھ 206% بڑھ چکا ہے، مگر نوکریاں پیدا کرنے والے اقدامات (جیسے آئی ٹی پارکس، فری لانسنگ ہبز) کی رفتار سست ہے۔ ماہرین تجویز کر رہے ہیں کہ حکومت کو فوری طور پر ووکیشنل ٹریننگ، اسکل ڈیولپمنٹ اور انڈسٹریل پالیسیز پر فوکس کرنا چاہیے، ورنہ 2026 میں بے روزگاری 8% تک جا سکتی ہے، جو سماجی عدم استحکام کا باعث بنے گی۔






