پاکستان کا معاشی ڈھانچہ 25 کروڑ آبادی کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا؛ گورنر اسٹیٹ بینک اور SIFC کا کھلا اعتراف

کراچی (2 دسمبر 2025، رات 10:14) انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (IBA) کراچی میں منعقدہ ایک سیمینار میں ملک کی معاشی حالت پر کھل کر بات ہوئی اور جو انکشافات سامنے آئے، وہ انتہائی تشویشناک ہیں۔

گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے گزشتہ ہفتے ہی تسلیم کیا تھا کہ “موجودہ معاشی ڈھانچہ 25 کروڑ آبادی کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا”۔ اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل (SIFC) کے کوآرڈینیٹر نے بھی اعتراف کیا کہ “ملک میں سرمایہ کاری کا ماحول انتہائی خراب ہے، مقامی سرمایہ کار پاکستان چھوڑ کر دبئی، لندن جا رہے ہیں”۔ آئی بی اے کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر ایس اکبر زیدی نے سیمینار میں کہا کہ تمام معاشی اشاریے غلط سمت میں جا رہے ہیں، فی کس آمدنی بھارت سے 71% اور بنگلہ دیش سے 53% کم ہے، اور سرمایہ کاری نہ ہونے کی وجہ سے روزگار کے مواقع ختم ہو رہے ہیں۔

ڈاکٹر زیدی نے کہا کہ دنیا بھر میں حکومتیں نجی شعبے کو سازگار ماحول دیتی ہیں، لیکن پاکستان میں الٹا ہو رہا ہے۔ پاکستان کا ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس 168واں نمبر ہے، اور آئی ٹی انقلاب یا نئی معیشت کی باتیں محض خواب ہیں۔ ہر سال 35 لاکھ نوجوان نوکری کی تلاش میں مارکیٹ میں آتے ہیں، مگر بے روزگاری 7.1% پر پہنچ گئی ہے جو 2004 کے بعد سب سے زیادہ ہے، اور یہ اعداد و شمار بھی کم رپورٹ کیے گئے ہیں۔

ماہر معاشیات ڈاکٹر حنیف مختار نے بتایا کہ تیزی سے بڑھتی آبادی اور کم سرمایہ کاری کی وجہ سے معاشی ڈھانچہ دباؤ پر لگ چکا ہے۔ اگر فوری طور پر سرمایہ کاری کا ماحول درست نہ کیا گیا تو اگلے 5 سالوں میں پاکستان کی معیشت مکمل طور پر بیٹھ جائے گی۔

یہ وہ تلخ حقائق ہیں جو نہ صرف اپوزیشن بلکہ خود حکومت کے ادارے تسلیم کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب ملک کا معاشی ڈھانچہ ہی 25 کروڑ لوگوں کو سہارا نہیں دے سکتا تو “معاشی بحالی” اور “ٹیک آف” کے دعوے کس بنیاد پر کیے جا رہے ہیں؟